Tuesday, November 29, 2016

ڈاکٹر عبدالسلام کا اعتراف جرم

Published by Unknown on Tuesday, November 29, 2016  | No comments

                         


اسلام علیکم!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام اسلام پسند مسلمانوں اور حق پرست علماء!
انسان زندگی میں بہت سی غلطیاں کرتا ہے ۔ان میں سے بہت سی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا خمیازہ انسان کو زندگی میں اور کچھ غلطیوں کا خمیازہ انسان کو زندگی کے بعد تک بھگتنا پڑتا ہے۔میرے سے بھی بطور انسان کافی زیادہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جن پر میں پشیمان ہے۔ایک غلطی میرے آباء و اجداد سے سرزد ہوئی جنھوں نے قیام پاکستان کے وقت محمد علی جناح کے بہکاوے میں آکر پاکستان کی حمایت کی لیکن اس کی مجے زیادہ پروا نہیں کیونکہ ان کی اولادیں اس کا کفارہ ادا کر رہیں ہیں اور نہ جانے کب تک کرتی رہیں گی۔ میری اپنی غلطیوں کی فہرست بہت زیادہ طویل ہے اور وقت بہت کم ہے ۔میرے مرنے کے بعد مجھے چند غلطیوں پر بہت ندامت ہے۔جھنگ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہو کرپاکستان کے لیے کچھ کرنے کا جزبہ ایک جرم تھا جب پنجاب کے تمام جاگیردار اور موجودہ حق پرست علماء کے اساتذہ نئی تخلیق پاتی ریاست میں اپنی قیمت وصول کرنے کی جدوجہد پورے زور و شور سے کر رہے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کے بعد میں نے بہت اونچا سوچنا شروع کر دیا اور ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کے باوجود ریاضی میں کچھ کرنے کی جستجو پیدا ہونے لگی۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ میرے ہم مذہب بھائیوں کو پنجاب میں سانس لینے کی آزادی بھی میسر نہیں تھی اور اور ہر روز لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایک مجمع ہمیں قتل کر دینے کا حلف اپنے لیڈروں کو دیا کرتا تھا۔کیمرج یونیورسٹی سے ماسٹر کر لینے کے بعد وہاں نوکری کر لینی چائیے تھی اور جھنگ اور پاکستان کے لوگوں کے لیے کچھ کر دینے کی جستجو لیے واپس اآنا ان جرائم کی فہرست میں ایک چھوٹا سا جرم ضرور تھا۔ایک ایسے ماحول میں جب نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لیے غیر مسلموں کی گرنیں ناپ رہے تھے اور تقسیم ہند کے شعلے اپنے عروج پر تھے مجھے ان سائنسی اور قومی مقاصد نامی فضولیات سے کنارہ کشی اختیار کر کے ان کے ساتھ شامل ہو جانا چائیے تھا تاکہ کوئی  اوریا مقبول جان میرے قصیدے بھی لاہور کے کسی الحمراء ہال میں پڑھ رہا ہوتا۔
 یہاں اپنی بے پناہ سائنسی خدمات اور اسکالر شپس کا ذکر کرنا غیر ضروری ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قابل و محب وطن اذہان اس کو آج بھی عالم اسلام کے خلاف یہود کی سازش ہی سمجھتے ہیں اور اب تو اتنے جرائم کرنے کے بعد میں خود بھی یہی سمجھنے لگا ہوں۔ گورنمنٹ کالج لاہور نے میرے جرائم کو بڑھانے میں اہم کرادار ادا کر دیا اور مجھے شعبہ ریاضی میں بطور استاد اور پھر سربراہ کے کام کرنے کی اآفر بھی کر دی۔لیکن پنجاب یونیورسٹی نے اس وقت بھی اسلام اور پاکستان کے قلعے ہونے کا ثبوت دیا جب میری تمام سائنسی ریسرچ اور نصابی تجاویز کو ردی کے کوڑے میں پھینک کر قومی خدمت سر انجام دی۔اور پھر پاکستان کے تمام قابل اور محب وطن اساتذہ نے یک آواز ہو کر حکومت پاکستان کو ایک گناہ عظیم سر زد ہونے سے بچا لیا جب پاکستان کے پہلے بین الاقوامی میعار کے کفار کے تعلیمی نظام پر قائم کردہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تجویز کو مسترد کر کےمجھے میری اوقات یاد دلا دی۔یہاں میں ان تمام اساتذہ اور اہل فکر کا شکر ادا کرنا مناسب سمجھو گا جنھوں نے دن رات میری حب وطنی پر جرح کر کے مجھے کبھی بھی ہندوستان کا ایجنٹ نہیں بننے دیا۔1953 کے فسادات میں ایک بار پھر مجھے یہ باور کرایا گیا کہ میرے پاکستانیت مشکوک ہے لیکن کہتے ہیں کہ انسان جب گمراہ ہو تو وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔یہی وہ دور تھا تھا جب واپس جا کر کیمرج یونیورسٹی، امپیریل کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں میں نے گمراہ کن سائنسی نظریات پر کام شروع کر دیا اور پنجاب یونیورسٹی کے ایک باطل وائس چانسلر نے نہ صرف ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا بلکہ مزید لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے انھیں میرے پاس لندن بھی بھجوایا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں زوالفقار علی بھٹو نے ہمیں غیر مسلم قرار دے کر اسلام کی اصل خدمت کی وہیں ان سے ایک گناہ بھی سر زد ہوا جب مجھے پاکستان کا پہلے ایٹمی ریسرچ کا ادارہ قائم کرنے کا کہا گیا اور مجھے امریکہ میں ان کے مشہور زمانہ نیوکلیر پراجیکٹ  یعنی کہ مین ہیٹن پراجیکٹ کی ریاضی کی چند خاص معلومات کے حصول کے لیے امریکہ اپنے دو خاص شاگردوں ریاض الدین اور اشفاق احمد کے ہمراہ بھیجا گیا اور پاکستان میں ایٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔وہ بم جسے پاکستان کے تمام دانشور اسلامی بم کہتے ہیں اس بم کی بنیاد میرے ہی کافر ہاتھوں نے رکھی تھی۔پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن میں ریسرچ کا ادارہ اور سائنسی علوم کی ترویج کا کام بھی میرے گناہ گار ہاتھوں سے ہوا۔بطور مشیر سائنس و ٹیکانالوجی حکومت پاکستان سپارکو کا ادارہ اور پاکستان میں اپیس سائنسز کے قیام جیسے غیر اسلامی کام بھی مجھے سے ہوئے جس پر مجے بےحد ندامت ہے۔عالم ارواح میں جب بھی میں سر ظفر علی خان، جوگندر ناتھ منڈل اور دیگر احباب کے ساتھ اپنے ان کاموں پر غور و فکر کرتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ ریاست پاکستان میں صرف پاکستانی بننے کے لیے ہم نے وہ کام کیوں نہیں کیے جن کی بدولت نہ صرف چند افراد آج بھی نامور ہیں اور ان کی اولادیں بھی پاکستان کی حکمران ہیں۔میں جان بوجھ کر نوبل انعام کا ذکر نہیں کر رہا کیونکہ یہ پاکستان میں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نوبل انعام عالم اسلام کے خلاف ایک سازش ہے اور ملالہ کے بعد تو یہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔میرا صرف ایک خواب تھا کہ پاکستان کے نوجوان سائنس اور ٹیکانولوجی میں میں پوری دنیا میں اپنا لوہا منوائیں اور اس کے لیے ان کو تمام وسائل مہیا کیے جائیں لیکن شاید پاکستان کے محب وطن عناصر کے نزدیک ایسا کرنا کفر ہے کیونکہ پاکستان بنا ہی صرف دنیا میں تمام کفر کے خاتمے کے لیے ہے۔مجھے یہ سمجھ لینا چائیے تھا کہ اس ملک میں عرب ریال اور ملا کا اتحاد عقلیت پسندی کا جنازہ نکال کر سماج کو ایک مردہ سماج بنا چکے ہیں لیکن میری گمراہی نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری ان تمام غلطیوں کو معاف کر دیا جائے کیونکہ ایک ایسا شخص جس نے ہمیشہ اوڑنا بچھوڑنا پاکستان کو بنایا ہو اس کے مرنے کے بعد یہ کہا جائے کہ بتایا جائے ڈاکٹر عبدالسلام نے کب کہا تھا انھیں پاکستان سے محبت ہو تو یہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا پسند کیا لیکن مجھے نہیں معلوم کب کوئی اسلام پسندوں کا گروہ میری قبر کو اکھاڑ کر اپنی پاکستان سے محبت اور اسلام سے محبت کا اصل ثبوت دے دے۔کاش کے وہ وقت واپس آجائے اور میں چیخ چیخ کر کہوں کہ محمد علی جناح پر اعتماد نہ کیا جائے کیونکہ ان کی جیب میں موجود تمام سکے کھوٹے ہیں۔کاش کے وہ وقت واپس آجائے اور میں جھنگ کے کسی ناخواندہ مولانا کی بیت کر لوں اور ساری زندگی ایک اچھا اور سچا پاکستانی بن کر رہوں۔مجھے آج بھی نہیں معلوم کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کبھی مجھے یا میرے جیسے کسی شخص کو پاکستانی سمجھا جائے گا یا نہیں کیونکہ یہاں ہزاروں مسلمانوں کے قاتلوں کی غائبانہ نمازہ جنازہ ادا کی جاتی ہے لیکن میرے جیسے نامعلوم پاکستانی کی قبر پر چوبیس گھنٹہ پہرا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام سے میں اکثر کہتا ہوں کہ کاش میں نے آپ کی بات مان لیتا اور آج بھارت رتن لے کر انڈیا گیٹ کے کسی طرف آرام سے سو رہا ہوتا۔ 
Author Sohail Ahmed


سہیل احمد قانون کے طالبعلم ہیں اور مختلف اخبارات اور جرائد سے بطور فری لانس مضمون نگار کے طور پر منسلک ہیں۔ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے@sohailsunpal آپ سے


Filed in :
About the Author

Sohail Ahmed is student of law and freelance journalist. Sohail can be reached at @sohailsunpal and fb.com/sohailcolumns

0 comments:

Spams are strictly prohibited

    If you would like to receive our RSS updates via email, simply enter your email address below click subscribe.

    Most Popular

back to top